’’سدوم ‘‘میں زندگی یک دم ختم ہوگئی تھی:امریکی محقیقن
لندن ؍15 اکتوبر،اللہ کی جانب سے قوم لوط کی غلط کاریوں کی سزا کے بارے میں تمام آسمانی کتب بالخصوص قرآن کریم کے مبارک صفحات اس بد قسمت قوم کے تذکروں سے سے بھرے ہوئے ہیں مگریہ بات آج تک پردہ راز میں تھی کہ قوم لوط کا شہر کہاں تھا؟ امریکی محققین نے 10 سال کی مسلسل محنت شاقہ اور تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں 3500 سال پیشتر اللہ کے عذاب کا شکار ہونے والی قوم لوط کے تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات ملے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے بھی اس اہم اور غیرمعمولی تاریخی واقعے کے حوالے سے سامنے آنے والی تحقیقات پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قوم لوط کی نافرمانیوں اور ان کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب کی تفصیلات قرآن پاک کی نو سورتوں میں مذکور ہیں۔ قرآن کریم کے علاوہ دیگر آسمانی کتب اور صحائف میں بھی قوم لوط کی تباہی کے تذکرے ملتے ہیں۔قوم لوط کے مرد اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے عورتوں کے بجائے مردوں کی طرف غیر فطری میلان رکھتے تھے۔ اس پر جلیل القدرپیغمبر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو منع کیا اور اللہ کی طرف سے سخت پکڑ کی وعید سنائی مگران کی قوم نے بہ شمول ان کی بیوی کے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر پتھروں کی بارش کردی۔ عذاب کے وقت صرف حضرت لوط ، ان کی بیوی کے سوا خاندان کے چند افراد اور کچھ رفقا ہی ز ندہ بچے باقی سب اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے۔قرآن کریم کی سورۃ العنکبوت کی آیت 35میں اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ قوم لوط پرعذاب نازل کیا گیا مگر ان کے تباہ شدہ شہر کو آنے والے انسانوں کے لیے عبرت کے طورپر باقی رکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ولقد ترکنا منہا آیۃ بیّنۃ لقوم یعقلون( اور ہم نے اہل خرد کے لیے کچھ واضح نشانیا باقی چھوڑ دیں)۔ قرآن کی وضاحت کے باوجود قوم لوط کے تباہ شہرکے بارے میں آج تک حضرت انسان کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پایا مگر حال ہی میں امریکی ماہرین ارضیات وآثار قدیمہ نے 10 سال کی تحقیق و جستجو کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اردن میں قوم لوط کے تباہ ہونے والے شہر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ قوم لوط کے تباہ شہرسدوم کے کھنڈرات تل الحمام کے مقام پر پائے گئے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی مشن کے سربراہ پروفیسر Steven Collins کا کہنا ہیکہ ان کی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آیا تو وہ خود بھی حیران رہ گئے کیونکہ سدوم شہر میں زندگی دفعتاً ختم ہوگئی تھی۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم Popular Archaeology نے پروفیسر کولینز کی قیادت میں کئی سال جنوبی اردن کے کھنڈرات میں تحقیق کی۔ 28 ستمبر کو تحقیقی ٹیم کے سربراہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ سدوم نامی شہر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ شہر حضرت لوط علیہ السلام کی اللہ کے عذاب کا شکار ہونے والی قوم کا ہے۔ اس خبرکو بڑے پیمانے پر عرب اور مغربی ذرائع ابلاغ میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ ماہرین نے بتایا کہ تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات سے پتا چلتاہے کہ یہ ایک وسیع وعریض شہر تھا جس میں کئی قدیم عمارتوں کی موجودگی کا بھی پتا چلتا ہے۔ غالبا یہ شہر برونز دور حکومت میں تباہی سے دوچار ہوا جو جنوبی وادی اردن تک کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔تورات میں بھی قوم لوط کی تباہی کا تذکرہ موجود ہے۔ تورات میں سفر تکوین میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو آگ سے عذاب دیا۔ امریکی محقق کوللینز اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ حقیقی معنوں میں قوم لوط کے شہرکی دریافت ایک گم شدہ خزانے کی دریافت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قوم لوط کے شہرمیں زندگی دفعتا ختم ہوگئی تھی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر 3500 سال قبل برونزی دور میں تباہ ہوا تاہم برونزی سلطنت کے علاقوں کے موجودہ نقشوں میں اس شہر کا کوئی وجود نہیں ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ سدوم شہر دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ایک بالائی اور دوسرا زیریں حصہ ہے۔ شہر کے گرد مِٹی کی اینٹوں کی 10 میٹر اونچی اور 5.2 میٹر چوٹی دیوار بھی دریافت ہوئی ہے۔ شہرکے دروازوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت بھی لوگ روز مرہ کے معمولات میں مشغول تھے مگر زندگی اچانک ہی ختم ہوگئی تھی۔ رہائش کے لیے بنائی گئے مکانات کے لیے مٹی کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔تورات میں بیان کردہ روایات کے مطابق حضرت لوط ابراہیم علیہ السلام کے رشتے میں بھتیجے تھے۔ دونوں ایک ہی علاقے یعنی موجودہ رام اللہ کے قریب بیت ایل میں رہائش پذیر تھے۔ بعد ازاں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہ السلام ایک دوسرے سے دور ہوگئے اور اپنے اپنے مویشیوں کو لے چل دیے۔ حضرت لوط نے پانی وسبزے سے بھرپور مشرقی علاقے "ریانہ" کا رُخ کیا، جہاں پرانہوں نے "سدوم" اور "عمورہ" نامی شہر پائے۔ یہ دونوں شہر دریائے اردن کے کنارے کے پرواقع تھے۔ انہوں نے "سدوم" کو اپنا مسکن بنا لیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قوم لوط کے جس شہر کوآج امریکی ماہرین نے دریافت کرنے کے بعد اس کے دو حصے بتائے ہیں۔ آج سے چودہ صدیاں پیشتر قرآن نے بھی اس کے دو حصوں کی نشاندہی کی تھی۔ سورۃ "ھود" کی آیات میں قوم لوط کے شہر کے دو حصوں کا ذکر ہے جہاں قرآن نے "ادناہ" (زیریں) کے لفظ میں اس کی وضاحت کی ہے۔حضرت لوط جب "سدوم" میں پہنچے تو وہاں کے لوگوں کو فواحشات میں ملوث پایا۔ پیغمبر نے انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کی اصلاح کی کوشش شروع کردی۔ سورہ الشعراء میں ہے کہ حضرت لوط نے اپنی قوم کو کہا کہ " فاتقوا اللہ وأطیعون" (اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو) ، سورۃ الشعراء ، آیت 163۔ مگر انہوں نے حضرت لوط کی بات ماننے سے انکار کردیا اور ان کا مقابلہ شروع کردیا۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ قوم لوط کے جواب کا ذکر کرتے ہیں۔ "قالوا لئن لم تنتہ یا لوط لتکونن من المخرجین"(انہوں نے کہا کہ اے لوط اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے یہاں سے نکال باہر کریں گے)۔ سورۃ الشعراء آیت 167۔ مگر لوط علیہ السلام اپنی بات پر قائم رہے اور کہا کہ "تأتون الفاحشۃ ما سبقکم بہا من أحد من العالمین"(آپ لوگ ایک ایسی بے حیائی کے مرتکب ہو رہے ہیں جو تم سے پہلے پوری دنیا میں کسی نے نہیں کی)۔ سورۃ الاعراف۔ آیت 80۔ سورۃ العنکبوت ، آیت 28 میں حضرت لوط کو اپنی قوم کو ان الفاظ میں مخاطب کرتے بتایا گیا۔ "انکم لتأتون الرجال وتقطعون السبیل وتأتون فی نادیکم المنکر"۔ (کیا تم (شہوت رانی کے لیے) مَردوں کے پاس جاتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور اپنی (بھری) مجلس میں ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہو)۔اس کے جواب میں قوم لوط اپنے نبی کو چیلنج کرتی ہے کہ " إئتنا بعذاب اللہ إن کنت من الصادقین"( اگرتو سچا پیغمبر ہے تو ہم پراللہ کا عذاب لا کردکھا)۔ سورہ العنکبوت ، آیت 29۔سورۃ الشعراء میں ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ سے فریاد کی ’’رب نجنی وأہلی مما یعملون‘‘سورۃ الشعراء ، آیت 169۔ (اے میرے پروردگار مجھے اور میرے اہل خانہ اس (برائی) سے نجات دے جس کا ارتکاب یہ لوگ کررہے ہیں)۔ اس پراللہ تعالیٰ نے فرشتے حضرت لوط کے پاس انہیں اطمینان دلانے کے لیے نازل کیے۔ فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا کہ " وقالوا لا تخف ولا تحزن إنا منجوک"(آپ خوف زدہ نہ ہوں اور نہ غم کریں۔ آپ بچ جانے والوں میں ہیں)۔ سورۃ العنکبوت آیت 33۔ فرشتوں نے مزید بتایا کہ وہ کیا کرنے والیہیں۔ "قالوا إنا مہلکو أہل ہذہ القریۃ إن أہلہا کانوا ظالمین"( ہم اہل بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ ظالم ہیں)۔ العنکبوت، آیت 31۔ فرشتوں نے کہا کہ "إنا منزلون علی أہل ہذہ القریۃ رجزا من السماء بما کانوا یفسقون"(ہم اس بستی پر اس کے مکینوں کے فسق وفجور کے باعث آسمان سے مصیبت نازل کرنے والے ہیں)۔ العنکبوت، آیت 34۔ سورۃ الھود میں ہے کہ "فلما جاء أمرنا جعلنا عالیہا سافلہا وأمطرنا علیہا حجارۃ من سجیل منضود"(پھر جب ہمارا (عذاب) کا حکم آیا تو ہم نے بستی کو تل پٹ کرکے رکھ دیا اور اس پر پکی مٹی کے پتھروں کی بارش کی جو تہہ در تہہ گرتے رہے)۔ ھود آیت، 82۔ سورہ الحجر میں ہے کہ "فأخذتہم الصیحۃ مشرقین" (پس انہیں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سخت کڑک نے پکڑ لیا) الحجر، آیت 73۔ اور سورۃ العنکبوت میں آیت 35 میں مذکور ہے کہ "ولقد ترکنا منہا آیۃ بیّنۃ لقوم یعقلون" (اور ہم نے اس (شہر) کی کچھ نشانیاں اہل خرد کے لیے باقی چھوڑ دیں)۔تورات کی روایت کے مطابق قوم لوط پر آسمان سے آگ برسائی گئی۔ مگر قرآن کریم کی بیان کردہ روایات حالیہ تحقیق کے مطابق ہیں۔ کیونکہ اگر آگ کا عذاب نازل کیا گیا ہوتا تو اس شہر پرآج آگ کے آثار پائے جاتے۔ سورہ العنکبوت میں ہے کہ ایک پتھر(سیارہ) قوم پرلوط پر گرا۔ اس کے علاوہ بارش کے قطروں کی طرح اس پر پتھر برسائے گئے، جنہوں نے بستی کے اوپرکو نیچے کردیا۔ پھر اس کے35 صدیوں تک مٹی کی دبیز تہہ بچھا دی۔ ملعون قوم لوط
کے تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات دریافت
’’سدوم ‘‘میں زندگی یک دم ختم ہوگئی تھی:امریکی محقیقن
لندن ؍15 اکتوبر،اللہ کی جانب سے قوم لوط کی غلط کاریوں کی سزا کے بارے میں تمام آسمانی کتب بالخصوص قرآن کریم کے مبارک صفحات اس بد قسمت قوم کے تذکروں سے سے بھرے ہوئے ہیں مگریہ بات آج تک پردہ راز میں تھی کہ قوم لوط کا شہر کہاں تھا؟ امریکی محققین نے 10 سال کی مسلسل محنت شاقہ اور تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں 3500 سال پیشتر اللہ کے عذاب کا شکار ہونے والی قوم لوط کے تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات ملے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے بھی اس اہم اور غیرمعمولی تاریخی واقعے کے حوالے سے سامنے آنے والی تحقیقات پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قوم لوط کی نافرمانیوں اور ان کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب کی تفصیلات قرآن پاک کی نو سورتوں میں مذکور ہیں۔ قرآن کریم کے علاوہ دیگر آسمانی کتب اور صحائف میں بھی قوم لوط کی تباہی کے تذکرے ملتے ہیں۔قوم لوط کے مرد اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے عورتوں کے بجائے مردوں کی طرف غیر فطری میلان رکھتے تھے۔ اس پر جلیل القدرپیغمبر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو منع کیا اور اللہ کی طرف سے سخت پکڑ کی وعید سنائی مگران کی قوم نے بہ شمول ان کی بیوی کے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر پتھروں کی بارش کردی۔ عذاب کے وقت صرف حضرت لوط ، ان کی بیوی کے سوا خاندان کے چند افراد اور کچھ رفقا ہی ز ندہ بچے باقی سب اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے۔قرآن کریم کی سورۃ العنکبوت کی آیت 35میں اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ قوم لوط پرعذاب نازل کیا گیا مگر ان کے تباہ شدہ شہر کو آنے والے انسانوں کے لیے عبرت کے طورپر باقی رکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ولقد ترکنا منہا آیۃ بیّنۃ لقوم یعقلون( اور ہم نے اہل خرد کے لیے کچھ واضح نشانیا باقی چھوڑ دیں)۔ قرآن کی وضاحت کے باوجود قوم لوط کے تباہ شہرکے بارے میں آج تک حضرت انسان کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پایا مگر حال ہی میں امریکی ماہرین ارضیات وآثار قدیمہ نے 10 سال کی تحقیق و جستجو کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اردن میں قوم لوط کے تباہ ہونے والے شہر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ قوم لوط کے تباہ شہرسدوم کے کھنڈرات تل الحمام کے مقام پر پائے گئے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی مشن کے سربراہ پروفیسر Steven Collins کا کہنا ہیکہ ان کی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آیا تو وہ خود بھی حیران رہ گئے کیونکہ سدوم شہر میں زندگی دفعتاً ختم ہوگئی تھی۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم Popular Archaeology نے پروفیسر کولینز کی قیادت میں کئی سال جنوبی اردن کے کھنڈرات میں تحقیق کی۔ 28 ستمبر کو تحقیقی ٹیم کے سربراہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ سدوم نامی شہر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ شہر حضرت لوط علیہ السلام کی اللہ کے عذاب کا شکار ہونے والی قوم کا ہے۔ اس خبرکو بڑے پیمانے پر عرب اور مغربی ذرائع ابلاغ میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ ماہرین نے بتایا کہ تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات سے پتا چلتاہے کہ یہ ایک وسیع وعریض شہر تھا جس میں کئی قدیم عمارتوں کی موجودگی کا بھی پتا چلتا ہے۔ غالبا یہ شہر برونز دور حکومت میں تباہی سے دوچار ہوا جو جنوبی وادی اردن تک کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔تورات میں بھی قوم لوط کی تباہی کا تذکرہ موجود ہے۔ تورات میں سفر تکوین میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو آگ سے عذاب دیا۔ امریکی محقق کوللینز اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ حقیقی معنوں میں قوم لوط کے شہرکی دریافت ایک گم شدہ خزانے کی دریافت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قوم لوط کے شہرمیں زندگی دفعتا ختم ہوگئی تھی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر 3500 سال قبل برونزی دور میں تباہ ہوا تاہم برونزی سلطنت کے علاقوں کے موجودہ نقشوں میں اس شہر کا کوئی وجود نہیں ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ سدوم شہر دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ایک بالائی اور دوسرا زیریں حصہ ہے۔ شہر کے گرد مِٹی کی اینٹوں کی 10 میٹر اونچی اور 5.2 میٹر چوٹی دیوار بھی دریافت ہوئی ہے۔ شہرکے دروازوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت بھی لوگ روز مرہ کے معمولات میں مشغول تھے مگر زندگی اچانک ہی ختم ہوگئی تھی۔ رہائش کے لیے بنائی گئے مکانات کے لیے مٹی کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔تورات میں بیان کردہ روایات کے مطابق حضرت لوط ابراہیم علیہ السلام کے رشتے میں بھتیجے تھے۔ دونوں ایک ہی علاقے یعنی موجودہ رام اللہ کے قریب بیت ایل میں رہائش پذیر تھے۔ بعد ازاں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہ السلام ایک دوسرے سے دور ہوگئے اور اپنے اپنے مویشیوں کو لے چل دیے۔ حضرت لوط نے پانی وسبزے سے بھرپور مشرقی علاقے "ریانہ" کا رُخ کیا، جہاں پرانہوں نے "سدوم" اور "عمورہ" نامی شہر پائے۔ یہ دونوں شہر دریائے اردن کے کنارے کے پرواقع تھے۔ انہوں نے "سدوم" کو اپنا مسکن بنا لیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قوم لوط کے جس شہر کوآج امریکی ماہرین نے دریافت کرنے کے بعد اس کے دو حصے بتائے ہیں۔ آج سے چودہ صدیاں پیشتر قرآن نے بھی اس کے دو حصوں کی نشاندہی کی تھی۔ سورۃ "ھود" کی آیات میں قوم لوط کے شہر کے دو حصوں کا ذکر ہے جہاں قرآن نے "ادناہ" (زیریں) کے لفظ میں اس کی وضاحت کی ہے۔حضرت لوط جب "سدوم" میں پہنچے تو وہاں کے لوگوں کو فواحشات میں ملوث پایا۔ پیغمبر نے انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کی اصلاح کی کوشش شروع کردی۔ سورہ الشعراء میں ہے کہ حضرت لوط نے اپنی قوم کو کہا کہ " فاتقوا اللہ وأطیعون" (اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو) ، سورۃ الشعراء ، آیت 163۔ مگر انہوں نے حضرت لوط کی بات ماننے سے انکار کردیا اور ان کا مقابلہ شروع کردیا۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ قوم لوط کے جواب کا ذکر کرتے ہیں۔ "قالوا لئن لم تنتہ یا لوط لتکونن من المخرجین"(انہوں نے کہا کہ اے لوط اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے یہاں سے نکال باہر کریں گے)۔ سورۃ الشعراء آیت 167۔ مگر لوط علیہ السلام اپنی بات پر قائم رہے اور کہا کہ "تأتون الفاحشۃ ما سبقکم بہا من أحد من العالمین"(آپ لوگ ایک ایسی بے حیائی کے مرتکب ہو رہے ہیں جو تم سے پہلے پوری دنیا میں کسی نے نہیں کی)۔ سورۃ الاعراف۔ آیت 80۔ سورۃ العنکبوت ، آیت 28 میں حضرت لوط کو اپنی قوم کو ان الفاظ میں مخاطب کرتے بتایا گیا۔ "انکم لتأتون الرجال وتقطعون السبیل وتأتون فی نادیکم المنکر"۔ (کیا تم (شہوت رانی کے لیے) مَردوں کے پاس جاتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور اپنی (بھری) مجلس میں ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہو)۔اس کے جواب میں قوم لوط اپنے نبی کو چیلنج کرتی ہے کہ " إئتنا بعذاب اللہ إن کنت من الصادقین"( اگرتو سچا پیغمبر ہے تو ہم پراللہ کا عذاب لا کردکھا)۔ سورہ العنکبوت ، آیت 29۔سورۃ الشعراء میں ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ سے فریاد کی ’’رب نجنی وأہلی مما یعملون‘‘سورۃ الشعراء ، آیت 169۔ (اے میرے پروردگار مجھے اور میرے اہل خانہ اس (برائی) سے نجات دے جس کا ارتکاب یہ لوگ کررہے ہیں)۔ اس پراللہ تعالیٰ نے فرشتے حضرت لوط کے پاس انہیں اطمینان دلانے کے لیے نازل کیے۔ فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا کہ " وقالوا لا تخف ولا تحزن إنا منجوک"(آپ خوف زدہ نہ ہوں اور نہ غم کریں۔ آپ بچ جانے والوں میں ہیں)۔ سورۃ العنکبوت آیت 33۔ فرشتوں نے مزید بتایا کہ وہ کیا کرنے والیہیں۔ "قالوا إنا مہلکو أہل ہذہ القریۃ إن أہلہا کانوا ظالمین"( ہم اہل بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ ظالم ہیں)۔ العنکبوت، آیت 31۔ فرشتوں نے کہا کہ "إنا منزلون علی أہل ہذہ القریۃ رجزا من السماء بما کانوا یفسقون"(ہم اس بستی پر اس کے مکینوں کے فسق وفجور کے باعث آسمان سے مصیبت نازل کرنے والے ہیں)۔ العنکبوت، آیت 34۔ سورۃ الھود میں ہے کہ "فلما جاء أمرنا جعلنا عالیہا سافلہا وأمطرنا علیہا حجارۃ من سجیل منضود"(پھر جب ہمارا (عذاب) کا حکم آیا تو ہم نے بستی کو تل پٹ کرکے رکھ دیا اور اس پر پکی مٹی کے پتھروں کی بارش کی جو تہہ در تہہ گرتے رہے)۔ ھود آیت، 82۔ سورہ الحجر میں ہے کہ "فأخذتہم الصیحۃ مشرقین" (پس انہیں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سخت کڑک نے پکڑ لیا) الحجر، آیت 73۔ اور سورۃ العنکبوت میں آیت 35 میں مذکور ہے کہ "ولقد ترکنا منہا آیۃ بیّنۃ لقوم یعقلون" (اور ہم نے اس (شہر) کی کچھ نشانیاں اہل خرد کے لیے باقی چھوڑ دیں)۔تورات کی روایت کے مطابق قوم لوط پر آسمان سے آگ برسائی گئی۔ مگر قرآن کریم کی بیان کردہ روایات حالیہ تحقیق کے مطابق ہیں۔ کیونکہ اگر آگ کا عذاب نازل کیا گیا ہوتا تو اس شہر پرآج آگ کے آثار پائے جاتے۔ سورہ العنکبوت میں ہے کہ ایک پتھر(سیارہ) قوم پرلوط پر گرا۔ اس کے علاوہ بارش کے قطروں کی طرح اس پر پتھر برسائے گئے، جنہوں نے بستی کے اوپرکو نیچے کردیا۔ پھر اس کے35 صدیوں تک مٹی کی دبیز تہہ بچھا دی۔